Tuesday 29 November 2011

ek falsafa zada sayed zada - علامہ اقبال

ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام

تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زناری برگساں نہ ہوتا!
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی

محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی
آدم کو ثبات کی طلب ہے
دستورِ حیات کی طلب ہے
دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق
مومن کی اذاں ندائے آفاق
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
تو سیدِ ہاشمی کی اولاد
میری کفِ خاک برہمن زاد
ہے فلسفہ میرے آب و گلِ میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
اقبال اگر چہ بے ہنر ہے
اس کی رگ رگ سے باخبر ہے
شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز
سن مجھ سے یہ نکتہ دل افروز
انجام خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوقِ عمل کے واسطے موت
دیں مسلک زندگی کی تقدیم!
دیں سرِ محمد براہیم!
’’دل در سخنِ محمدی بند
اے پورِ علی ز بو علی چند
چوں دیدۂ راہ بیں نداری
قاید قرشی بہ از بخاری

0 comments:

Powered by Legendpoetry All rights reserved